تعارف ( )
اسلام ایک ایسا کامل دین ہے جو انسان کو زندگی کے ہر پہلو میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ دین صرف عبادات جیسے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ تک محدود نہیں بلکہ انسان کی عملی زندگی، اخلاق، معاملات اور سماجی تعلقات تک محیط ہے۔ قرآن و سنت نے بار بار ایک ایسے کردار کی تشکیل پر زور دیا ہے جو عدل، دیانت اور سچائی سے مزین ہو۔ انہی اخلاقی اوصاف میں سب سے بنیادی اور اہم وصف سچائی ہے۔
سچائی انسان کے ایمان اور تقویٰ کا معیار ہے۔ سچ بولنے والا شخص نہ صرف اپنے رب کے نزدیک محبوب ہوتا ہے بلکہ لوگوں کے درمیان بھی عزت اور اعتماد کا مقام حاصل کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
> “تم سچائی کو لازم پکڑو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف۔”
(صحیح بخاری و مسلم)
اسلام کی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری ہوئی ہے جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ سچائی سے زندگی میں برکت آتی ہے اور جھوٹ و خیانت ہمیشہ رسوائی کا باعث بنتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے لے کر خلفائے راشدین تک اور بعد کے صالح حکمرانوں تک، ہر دور میں سچائی اور دیانتداری کو سب سے بڑی خوبی قرار دیا گیا ہے۔
آج کے دور میں جب جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی عام ہو چکی ہے، ایسے میں سچائی پر قائم رہنے والے افراد چراغ کی مانند ہیں جو معاشرے کو روشنی اور بھلائی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اسی پس منظر میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور کا ایک سبق آموز واقعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ سچائی انسان کو نہ صرف عزت دلاتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر متوقع انعامات کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔
یہ کہانی ایک غریب لکڑہارے کی ہے جس نے سچائی کو اپنایا، اور اس کی دیانتداری نے نہ صرف اس کی زندگی بدل دی بلکہ پورے معاشرے کے لیے مثال قائم کر دی۔
—
🌲 لکڑہارے کی دیانتداری
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دورِ خلافت میں ایک چھوٹے گاؤں میں ایک لکڑہارا رہتا تھا۔ اس کی زندگی سادہ مگر محنت اور سچائی سے بھری ہوئی تھی۔ وہ روز جنگل جاتا، لکڑیاں کاٹتا اور شہر لا کر بیچتا۔ اگرچہ غربت نے اسے تنگ کر رکھا تھا مگر وہ کبھی حرام مال کی طرف مائل نہ ہوتا۔
ایک دن اسے جنگل کے راستے میں ایک تھیلا ملا۔ جب کھولا تو اندر سونے کے سکے تھے۔ اس کی آنکھوں میں حیرت چھا گئی۔ شیطان نے وسوسہ ڈالا:
“یہ تو اللہ کی نعمت ہے، اپنی غربت ختم کرو اور یہ سکے رکھ لو۔”
لیکن فوراً دل کانپ اٹھا اور ایمان نے پکارا:
“یہ کسی اور کا حق ہے، اگر میں نے خیانت کی تو قیامت کے دن اللہ کو کیا جواب دوں گا؟”
🕌 امانت کی واپسی
وہ تھیلا اٹھا کر شہر کی جامع مسجد گیا جہاں قاضی بیٹھے تھے۔ لکڑہارے نے پوری بات سنائی اور تھیلا ان کے حوالے کر دیا۔ اعلان کیا گیا کہ جس کا یہ مال ہے، وہ نشانیاں بتا کر واپس لے سکتا ہے۔ کچھ دنوں بعد ایک تاجر آیا جس نے صحیح نشانیاں بتائیں۔ قاضی نے مال واپس کر دیا۔
تاجر نے لکڑہارے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:
“تو چاہتا تو یہ سب رکھ لیتا مگر تیری سچائی اور دیانتداری نے مجھے حیران کر دیا ہے۔”
💝 اللہ کی طرف سے انعام
تاجر نے نہ صرف اسے کچھ سونے کے سکے تحفے میں دیے بلکہ مستقل روزگار کا انتظام بھی کیا۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے فرمایا:
“اگر میری ریاست کے سب لوگ ایسے ہو جائیں تو عدل قائم ہو جائے۔”
—
🌷 قرآن و حدیث سے رہنمائی (300 الفاظ)
📖 قرآن کی روشنی
. سورہ النحل (16:90):
> “بیشک اللہ انصاف، احسان، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے…”
یہ واقعہ عدل اور احسان کی بہترین مثال ہے۔
. سورہ الحجرات (49:13):
> “اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔”
لکڑہارے کی عاجزی اور خوفِ خدا حقیقی تقویٰ کی علامت تھی۔
. سورہ التوبہ (9:119):
> “اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔”
یہ آیت ہر مسلمان کو سچائی اختیار کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
🌸 احادیث مبارکہ
. نبی ﷺ نے فرمایا:
“سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے، اور نیکی جنت کی طرف۔”
(بخاری و مسلم)
. آپ ﷺ نے فرمایا:
“اللہ تعالیٰ سچ بولنے والے کو پسند کرتا ہے اور جھوٹے سے نفرت کرتا ہے۔”
(مسند احمد)
یہ تمام احادیث اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ سچائی محض اخلاقی خوبی نہیں بلکہ ایمان کا حصہ ہے۔
آج کے دور میں سچائی کی ضرورت ( )
آج کا زمانہ بظاہر ترقی یافتہ ہے م
گر حقیقت میں جھوٹ، دھوکہ دہی اور بددیانتی عام ہو چکی ہے۔ سیاست سے کاروبار تک اور تعلقات سے معاشرت تک، جھوٹ کا اثر نمایاں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دلوں سے اعتماد ختم ہو گیا، معاشرہ بے سکونی اور بدامنی کا شکار ہے۔ سچ بولنے والا انسان لوگوں کے دلوں میں جگہ پاتا ہے اور اس پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔
اگر ایک لکڑہارا غربت کے باوجود امانت داری کو ترجیح دے سکتا ہے تو آج کے مسلمان بھی اپنی زندگیوں میں سچائی کو اپناسکتے ہیں۔ اگر ہم کاروبار، تعلقات اور روزمرہ زندگی میں جھوٹ کی بجائے سچائی کو بنیاد بنائیں تو نہ صرف ہماری ذاتی زندگی بہتر ہوگی بلکہ پورا معاشرہ سکون اور عدل کا گہوارہ بن جائے گا۔
❓ اکثر پوچھے جانے والے سوالات (FAQs)
سوال 1: حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی کہانی میں سچائی کا کیا سبق ملتا ہے؟
جواب: یہ کہ سچائی انسان کو عزت، اعتماد اور کامیابی عطا کرتی ہے۔ جھوٹ وقتی فائدہ دے سکتا ہے لیکن ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
سوال 2: اسلام میں سچائی کی اہمیت کیا ہے؟
جواب: قرآن و حدیث میں سچائی کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔”
سوال 3: سچائی اپنانے سے انسان کو دنیاوی فوائد کیسے ملتے ہیں؟
جواب: سچ بولنے والا انسان لوگوں کے دل میں جگہ بناتا ہے، اس پر اعتماد کیا جاتا ہے اور معاشرے میں عزت پاتا ہے۔
سوال 4: کیا سچائی کے ذریعے آخرت کی کامیابی بھی حاصل کی جا سکتی ہے؟
جواب: جی ہاں، سچائی اللہ کے نزدیک محبوب عمل ہے۔ قیامت کے دن سچے لوگ انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوں گے۔
اختتام اور دعا ()
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سچائی صرف ایک اخلاقی خوبی نہیں بلکہ ایمان کی علامت ہے۔ دیانتدار شخص دنیا میں بھی عزت پاتا ہے اور آخرت میں بھی کامیاب ہوتا ہے۔
آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنی اولاد کو جھوٹ کی بجائے سچ بولنے کی تربیت دیں۔ اپنے کاروبار میں دیانتداری کو بنیاد بنائیں۔ اپنی زبان اور اپنے وعدوں کو سچا رکھیں۔ یہی ایمان کا تقاضا ہے اور یہی کامیابی کا راستہ ہے۔
دعا:
اے اللہ! ہمیں ہمیشہ سچ بولنے اور سچائی پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمارے دلوں کو جھوٹ، فریب اور خیانت سے پاک کر دے۔ ہمیں دنیا میں عزت اور آخرت میں کامیابی عطا فرما۔ یا اللہ! ہمارے معاشرے میں دیانتداری اور عدل کو عام فرما اور ہمیں اپنے محبوب بندوں میں شامل کر۔ آمین۔ ۔ اگر آپ مزید سچائی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو Dar-us-Salam پر اس مضمون کو بھی دیکھیں۔
MashaAllah ❤️