حضرت بلال حبشیؓ کی وفاداری اور قربانی: ایمان کا سچا پیغام”
اسلام کی ابتدائی تاریخ میں چند شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے دینِ حق کے لیے اپنی جان، عزت اور ہر شے قربان کر دی۔ ان ہی عظیم ہستیوں میں ایک روشن نام حضرت بلال حبشیؓ کا ہے، جو نہ صرف حضور نبی کریم ﷺ کے پہلے مؤذن تھے بلکہ اسلام کی راہ میں بے مثال صبر و قربانی کی علامت بھی۔
—
غلامی سے حریت کا سفر:
حضرت بلالؓ حبشہ (موجودہ ایتھوپیا) کے رہنے والے تھے، اور ان کے والد کا نام رباح تھا۔ وہ مکہ میں امیہ بن خلف کے غلام تھے جو کہ قریش کے بڑے سرداروں میں سے تھا۔ جب اسلام کا پیغام مکہ میں پھیلنا شروع ہوا، حضرت بلالؓ ان خوش نصیبوں میں شامل ہوئے جنہوں نے سب سے پہلے کلمہ توحید پڑھا اور اسلام قبول کیا۔
لیکن اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد انہیں سخت ترین آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ ان کا مالک امیہ بن خلف انہیں جلتی ریت پر لٹاتا، بھاری پتھر ان کے سینے پر رکھتا اور اذیتیں دیتا، لیکن حضرت بلالؓ کا جواب صرف ایک ہوتا:
“اَحد، اَحد”
(اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے)
یہ الفاظ صرف زبان پر نہیں تھے بلکہ دل سے نکلتے تھے، جو ان کے ایمان کی پختگی کا اعلان کرتے۔
—
آزادی کا تحفہ:
جب نبی کریم ﷺ نے حضرت بلالؓ پر ہونے والے ظلم و ستم کا حال سنا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کو فرمایا کہ بلال کو خرید کر آزاد کروائیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کثیر مال کے عوض بلالؓ کو خریدا اور ان کی آزادی کا اعلان کیا۔ یہ آزادی صرف جسم کی نہیں تھی بلکہ روح کی بھی تھی — ظلم کے اندھیروں سے نکل کر ایمان کے نور میں داخل ہونے کی آزادی۔
—
مؤذنِ رسول ﷺ بننے کا شرف:
مدینہ منورہ ہجرت کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مسجد نبوی تعمیر فرمائی اور اذان کے ذریعے لوگوں کو نماز کی اطلاع دینے کا نظام قائم کیا۔ اس عظیم عمل کے لیے جس ہستی کو منتخب کیا گیا وہ کوئی اور نہیں، حضرت بلال حبشیؓ تھے۔
ان کی آواز میں تاثیر، سچائی اور نورِ ایمان تھا۔ جب وہ “اللّٰہُ أَكْبَر” پکارتے تو مدینہ کی گلیاں ایمان سے گونج اٹھتیں۔
ان کے الفاظ صرف اذان نہ تھے، بلکہ محبتِ رسول ﷺ، اطاعتِ الٰہی اور قربانی کی صدا تھے۔
—
جنگوں میں شرکت:
حضرت بلالؓ نہ صرف اذان دینے میں پیش پیش تھے بلکہ میدانِ جنگ میں بھی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے شمشیر بکف رہتے۔ وہ غزوہ بدر، احد اور خندق میں شامل ہوئے۔
غزوہ بدر میں حضرت بلالؓ نے اپنے سابقہ آقا، امیہ بن خلف سے بدلہ لیا۔ یہ بدلہ ذاتی انتقام نہ تھا بلکہ حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے کا مظہر تھا۔
—

فتحِ مکہ اور اذان:
جب مکہ فتح ہوا تو نبی کریم ﷺ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے۔ تمام بت توڑ دیے گئے اور اللہ ہو اکبر کی صدائیں بلند ہوئی۔ اسی موقع پر، حضور ﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں۔
یہ وہی مکہ تھا جہاں بلالؓ کو گھسیٹا جاتا تھا، پتھروں سے دبایا جاتا تھا۔ آج وہی بلالؓ خانہ کعبہ کی چھت سے توحید کی صدا بلند کر رہے تھے۔ یہ منظر نہ صرف بلالؓ کی فتح تھی بلکہ اسلام کی حقانیت کا اعلان بھی۔
—
وصالِ نبوی ﷺ اور بلالؓ کا غم:
جب نبی کریم ﷺ کا وصال ہوا، حضرت بلالؓ غم سے نڈھال ہو گئے۔ ان کے لیے مدینہ میں رہنا مشکل ہو گیا کیونکہ ہر لمحہ انہیں حضور ﷺ کی یاد دلاتا تھا۔ وہ شام (سوریہ) چلے گئے۔
روایت ہے کہ ایک دن خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت ہوئی، جس میں آپ ﷺ نے فرمایا:
“بلال! تم ہمیں ملنے کیوں نہیں آتے؟”
حضرت بلالؓ مدینہ واپس آئے، حضور ﷺ کے روضۂ مبارک پر حاضری دی، اور وہی اذان دی جو انہوں نے کئی سال پہلے دی تھی۔ لیکن جب “اشھد ان محمد رسول اللہ” پر پہنچے تو زاروقطار رونے لگے، اذان مکمل نہ کر سکے۔
پورا مدینہ رو پڑا۔
—
وفات:
حضرت بلالؓ نے زندگی کا آخری وقت شام کے شہر دمشق میں گزارا۔ ان کی وفات 60 ہجری کے آس پاس ہوئی۔ ان کے آخری الفاظ یہ تھے:
“غداً ألقى الأحبة، محمداً و حزبہ”
(کل میں اپنے محبوب نبی محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات کروں گا)
—
سبق:
حضرت بلالؓ کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ:
ایمان پر استقامت ہی اصل کامیابی ہے
ظلم کے مقابلے میں صبر کا ہتھیار مؤثر ترین ہے
نبی ﷺ سے سچی محبت انسان کو بلند مقام عطا کرتی ہے
غلامی میں پیدا ہونے والا شخص بھی دنیا کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے
—
Pingback: سوشل میڈیا اور مسلمان کی ذمہ داریاں: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مکمل رہنمائی - Deenkiraah
Pingback: زبان کی حفاظت: احادیث کی روشنی میں مکمل اسلامی رہنمائی - Deenkiraah