حضرت علیؓ کی دانشمندی کا ایک واقعہ – اسلامی تاریخ کا روشن سبق
اسلامی تاریخ میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو علم، حکمت، اور عدل کا ایسا پیکر مانا جاتا ہے جس کی مثال رہتی دنیا تک دی جاتی رہے گی۔ وہ نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے بلکہ خلفائے راشدین میں سے چوتھے خلیفہ بھی تھے۔ ان کی دانشمندی کے بے شمار واقعات ہیں، جن میں سے ایک واقعہ یہاں بیان کیا جا رہا ہے جو ہمارے لیے نہایت سبق آموز ہے۔
—
💼 مقدمہ: دو عورتیں اور ایک بچہ
خلافتِ حضرت علیؓ کے دور میں دو عورتیں ایک بچے کے حوالے سے جھگڑتے ہوئے آپؓ کے پاس عدالت میں آئیں۔ دونوں کا دعویٰ تھا کہ بچہ اُن کا ہے۔ بظاہر فیصلہ کرنا مشکل تھا کیونکہ دونوں عورتوں کے دلائل اور جذبات ایک جیسے تھے۔
حضرت علیؓ نے ان دونوں کو بغور سنا اور کوئی جلد بازی نہ کی۔ آپؓ جانتے تھے کہ انصاف کے ساتھ ساتھ دانشمندی سے بھی کام لینا ہو گا۔
—
👨⚖️ حضرت علیؓ کا فیصلہ
حضرت علیؓ نے فرمایا:
> “اگر دونوں کا دعویٰ درست ہے تو ہمیں بچہ آدھا آدھا کر دینا چاہیے، تاکہ انصاف ہو جائے۔”
یہ سن کر ایک عورت خاموش رہی، جب کہ دوسری عورت چیخ اٹھی:
> “نہیں! بچہ اسے دے دو، لیکن اسے مت مارو!”
حضرت علیؓ مسکرائے اور فرمایا:
> “یہی ماں ہے۔ کیونکہ ایک سچی ماں اپنی اولاد کو مرنے نہیں دیتی، چاہے وہ اس سے جدا ہو جائے۔”
پھر آپؓ نے بچہ اسی عورت کو دے دیا جس نے بچے کو بچانے کے لیے اپنا حق چھوڑ دیا۔
—
🕊 یہ واقعہ کیا سکھاتا ہے؟
یہ واقعہ صرف حضرت علیؓ کی عقل و فہم کا مظاہرہ نہیں، بلکہ اس میں کئی اخلاقی اور روحانی سبق پوشیدہ ہیں:
1. انصاف صرف قانون سے نہیں، فہم و فراست سے ہوتا ہے
حضرت علیؓ نے محض ظاہری باتوں پر فیصلہ نہیں کیا، بلکہ اندرونی جذبے اور نیت کو پہچان کر فیصلہ دیا۔
2. سچی محبت قربانی مانگتی ہے
جو عورت بچے کے لیے اپنی ماں ہونے کا دعویٰ چھوڑنے کو تیار ہوئی، وہی حقیقی ماں نکلی۔
3. قائد وہی ہے جو مشکل لمحوں میں درست راستہ چنے
حضرت علیؓ نے جذباتی ماحول میں بھی فیصلہ دانشمندی سے کیا، جو ایک مثالی قائد کی علامت ہے۔
—
🧠 حضرت علیؓ کی دیگر حکمت بھری باتیں
حضرت علیؓ صرف عدالت میں نہیں بلکہ عام زندگی میں بھی دانشمندی کی اعلیٰ مثال تھے۔ ان کی چند مشہور اقوال آج بھی رہنمائی فراہم کرتے ہیں:
“انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے۔”
“علم دولت سے بہتر ہے، کیونکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے، دولت تمہیں اس کی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔”
“انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کی جہالت ہے۔”
یہ اقوال واضح کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ کا علم صرف کتابی نہیں بلکہ عملی تھا۔
—
🌟 حضرت علیؓ کی شخصیت میں توازن
حضرت علیؓ ایک عظیم مجاہد، عالم، قاضی، اور خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نرم دل انسان بھی تھے۔ ان کی شخصیت میں:
علم و تقویٰ
عدل و رحم
حلم و شجاعت
سب کچھ بدرجہ اتم موجود تھا۔
—
📖 قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ
حضرت علیؓ کا یہ انداز رسول اللہ ﷺ کی سنت کے عین مطابق تھا۔ نبی ﷺ بھی ایسے مقدمات میں ظاہری شواہد کے ساتھ نیت اور سچائی کو مدنظر رکھتے تھے۔ حضرت علیؓ نے اسی سیرت کو آگے بڑھایا۔
—
🤝 آج کے معاشرے کے لیے سبق
ہمارے معاشرے میں اکثر فیصلے ظاہری دلائل یا جذبات کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں، جب کہ حضرت علیؓ کا یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ:
ہر معاملے میں فہم و فراست سے کام لینا چاہیے
اصل حق دار کی پہچان جذبات، قربانی اور سچائی سے ہوتی ہے
اگر ہم حضرت علیؓ کی سیرت کو اپنائیں تو معاشرتی انصاف بحال ہو سکتا ہے
✨ حضرت علیؓ کی دانشمندی اور قیادت کا عالمی اثر
حضرت علیؓ کے فیصلے صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے عدل و دانش کی مثال ہیں۔ دنیا کے کئی غیر مسلم مؤرخین نے بھی ان کی حکمت اور انصاف کی تعریف کی ہے۔ ان کا یہ واقعہ آج کے ججوں، وکیلوں اور قائدین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اگر معاشرے کے رہنما اسی انداز میں فیصلے کریں تو ظلم و ناانصافی ختم ہو جائے۔
—
🏛 جدید عدلیہ کے لیے سبق
آج کے دور میں عدالتیں برسوں مقدمے لٹکاتی ہیں، ثبوتوں اور گواہوں کی کمی میں سچائی دب جاتی ہے۔ حضرت علیؓ کا یہ فیصلہ بتاتا ہے کہ:
عدل کا مقصد اصل حق دار تک حق پہنچانا ہے، نہ کہ محض کاغذی کارروائی مکمل کرنا۔
قاضی یا جج کو صرف قانون ہی نہیں بلکہ بصیرت اور دانشمندی بھی استعمال کرنی چاہیے۔
اگر انصاف نیت اور قربانی کے پہلو کو دیکھ کر کیا جائے تو غلط فیصلے کم ہوں گے۔
❓ اکثر پوچھے جانے والے سوالات (FAQ)
1. حضرت علیؓ کا وہ واقعہ کیا ہے جس میں دو عورتیں بچے کے لیے جھگڑ رہی تھیں؟
یہ واقعہ خلافتِ حضرت علیؓ کے دور میں پیش آیا، جب دو عورتیں ایک ہی بچے پر دعویٰ کرتی ہوئی عدالت میں آئیں۔ حضرت علیؓ نے اپنی حکمت سے فیصلہ کیا اور اصل ماں کی شناخت کی، جس نے بچے کو بچانے کے لیے اپنا حق چھوڑ دیا۔
—
2. حضرت علیؓ نے اس مقدمے میں دانشمندی کیسے دکھائی؟
انہوں نے ظاہری دلائل پر فیصلہ کرنے کے بجائے فہم و فراست کا استعمال کیا۔ اصل ماں کی پہچان اس کے جذبۂ قربانی سے کی گئی، نہ کہ صرف دعووں سے۔
—
3. اس واقعے سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟
انصاف صرف کاغذی شواہد سے نہیں بلکہ بصیرت اور نیت کو دیکھ کر ہونا چاہیے۔
سچی محبت قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔
ایک رہنما کو مشکل فیصلوں میں دانشمندی دکھانی چاہیے۔
—
4. حضرت علیؓ کی دانشمندی آج کے دور میں کیوں اہم ہے؟
آج کے دور میں عدلیہ اور قیادت میں اکثر فیصلے تاخیر یا جانبداری کا شکار ہوتے ہیں۔ حضرت علیؓ کا انداز بتاتا ہے کہ انصاف تیز، شفاف اور بصیرت پر مبنی ہونا چاہیے تاکہ اصل حق دار کو حق مل سکے۔
—
5. کیا حضرت علیؓ کے اقوال بھی رہنمائی فراہم کرتے ہیں؟
جی ہاں، حضرت علیؓ کے حکمت بھرے اقوال آج بھی زندگی کے ہر شعبے کے لیے روشنی کا مینار ہیں، مثلاً:
“انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے۔”
“علم دولت سے بہتر ہے۔”
“خاموشی بہترین جواب ہے۔”
—
6. کیا یہ واقعہ قرآن و سنت کے مطابق ہے؟
جی ہاں، حضرت علیؓ کا فیصلہ بالکل سنت کے مطابق تھا، کیونکہ نبی کریم ﷺ بھی فیصلے کرتے وقت نیت اور سچائی کو مدنظر رکھتے تھے۔
—
Pingback: گناہوں سے بچنے کے عملی طریقے: قرآن و سنت کی روشنی میں مکمل رہنمائی - Deenkiraah